Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر18

اریزے نے بھی، کبھی بھی۔۔ اس کے کسی عام سے حکم کو بھی نہیں ٹالا تھا۔۔ کبھی اختلاف نہیں کیا تھا۔۔!! عادتیں ہی بگاڑ ڈالیں تھیں اس کی۔۔!!
"وہ۔۔وہ۔۔ میں پانی پینے جارہی تھی۔۔!!" عنقا نے عدیل کے تیوروں سے ڈرتے ہوئے جھوٹ گھڑا۔
"میرے خیال سے، یہ۔سائیڈ ٹیبل پر پڑا جگ ، پانی سے ہی بھرا ہے۔۔!!" وہ اس کا جھوٹ پکڑتے ہوئے بولا۔۔ اور اب وہ باقاعدہ اٹھ بیٹھا تھا۔
"نن۔۔ نہیں یہ تو گرم ہے ناں۔۔ مجھے ٹھنڈا پانی چاہیے تھا۔۔!!" وہ گھبرا کر بولی۔۔ اور اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ آخر ایسے گھبرا کیوں رہی ہے۔
ایسے تو وہ ، عدیل اس وقت بھی گھبراتی تھی۔۔ جس وقت اس کا جنون، انتقام اور وحشت، انتہا پر تھی۔۔ پھر اب کیوں وہ اتنا گڑبڑا رہی تھی۔۔!! کیوں ایسے گھبرا رہی تھی۔۔!! کیا تھا۔۔ جو اسے عدیل کے سامنے ، ثابت قدمی سے ،ڈٹنے نہیں دے رہا تھا۔۔!! کیا تھا جو اسے، گھبرانے پر مجبور کر رہا تھا۔۔!! شاید عدیل کے، عنقا کے متعلق بدلے ہوئے خیالات اور محسوسات کی آنچ تھی۔۔ جس کی وہ تاب نہیں لا پائی۔۔ شاید اسی لیے وہ ڈگمگا رہی تھی۔۔ نروس ہو رہی تھی۔۔!!
"اچھا۔۔ چلو۔۔ جاؤ پی کر واپس آؤ۔۔ میں انتظار کر رہا ہوں۔۔ اور اگر واپس نہ آئیں تو اپنا انجام دیکھنا۔۔!!" عدیل نے دھمکایا۔
عنقا نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا۔۔ اس کا حلق سچ مچ میں خشک ہوگیا تھا۔۔ اور اب اسے ،سچ میں، ٹھنڈے یخ پانی کی شدت سے طلب ہوئی۔
وہ پانی پی کر واپس آئی تو ۔۔ عدیل اپنے بستر کے بالکل کنارے کے قریب ہی۔۔ ایک طرف کو ہو کر لیٹا تھا۔۔ اس نے عنقا کے لیے اچھی خاصی جگہ بنائی تھی۔۔ عنقا بھی خاموشی سے۔۔ سکڑ کر ایک طرف کو لیٹ گئی۔۔ عدیل نے اس سے مزید کوئی بات نہیں کی۔۔ تاکہ وہ پرسکون ہو کر سو سکے۔۔ کیوں کہ پہلے ہی وہ دیر تک پڑھنے کی وجہ سے ، کافی دیر تک جاگی تھی۔۔ اب وہ چاہتا تھا کہ وہ بالکل مطمئن ہو کر آرام کرے۔
 جبکہ دوسری طرف۔۔ عدیل کے اتنا پاس ہوتے ہوئے وہ کیسے مطمئن ہو سکتی تھی۔۔!!
 یہ تو صرف عنقا جانتی تھی کہ اس وقت کیسے اس کی سانسیں اٹکی ہوئی تھیں۔۔!! 
اس کا تیزی سے دھڑکتا دل، ماتھے پر نمودار ہوتی پسینے کی بوندیں اور بے ترتیب ہوتی سانسیں، اس کی نیند میں بہت سا خلل پیدا کر رہی تھیں۔۔!!
 وہ چاہ کر بھی نہیں سو پارہی تھی۔۔!!  
بہت کوشش کے بعد، نجانے کیا کیا دعائیں اور ورد پڑھ پڑھ کر اس پر کچھ غنودگی طاری ہوئی۔۔ وہ غنودگی کی حالت میں بھی بار بار ، اللّٰه سے ، اپنے ساتھ لیٹی بلا یعنی عدیل کے شر سے پناہ مانگ رہی تھی۔۔!! اور یوں کرتے کراتے ، بالآخر، اس نے اپنا آپ، نیند کے حوالے کیا۔۔اور ہر طرح کی پریشانی بھلائے مزے سے سوگئی۔
×××
 صبح  ، عدیل نے اس کو ، اس کی غضب کی گہری نیند سے جگانے کی کوشش کی۔۔ کیوں کہ وقت تھوڑا تھا۔۔ اگر وہ فوراً نہ اٹھتی تو ممکن تھا کہ وہ اپنی یونیورسٹی سے لیٹ ہوجاتی۔۔ عدیل اسے مسلسل آوازیں دے رہا تھا۔۔ مگر وہ تھی کہ منہ کھولے تیز تیز سانس لیتی رہی۔
جب آنکھیں کھلنے کے کوئی آثار نہ نظر آئے تو عدیل نے بہت سوچ سمجھ کر، اپنا نرم سا تکیہ اٹھایا، اور زور سے عنقا کو دے مارا۔۔ وہ بےچاری چونک کر اٹھی۔۔ابھی بھی، اس پر نیند کا کافی غلبہ تھا۔۔ اس لیے اس معصوم عورت کو عدیل کی کارروائی کی سنگینی کا احساس نہ ہوا۔۔ ویسے وہ بھی سچ مچ کا جنگلی تھا۔۔!! اب بندہ ہلا جلا کر بھی تو جگا سکتا ہے ناں۔۔!! لیکن نہیں جی۔۔!! خود کو جنگلی بھی تو ثابت کرنا ہوتا ہے۔۔!!
"مسسز!! اٹھو۔۔!! جاگ جاؤ۔۔!! ورنہ یونی سے لیٹ ہو جاؤ گی۔۔!!" اب کی بار عدیل نے، انسانوں کی طرح ، آرام سے اس کا گال تھپتھپا کر جگانے کی کوشش کی۔
اس کا لمس محسوس ہونے پر عنقا کی ساری حسیں بیدار ہوئیں۔ اس کی نیند ، اچھے سے اکھڑی تھی۔۔!! وہ سٹپٹا کر اٹھی تھی۔۔!! اور کچھ کہے سنے بغیر، سامنے  نصب وال کلاک پر وقت دیکھتے ہوئے،  واڈروب سے اپنے کپڑے نکالے اور فریش ہونے چلی گئی۔
جلدی جلدی ناشتہ کرنے کے بعد وہ اپنی بکس اور بیگ اٹھا کر جانے لگی تھی کہ اسے یاد آیا۔۔ وین والے کو تو اس نے انفارم ہی نہیں کیا ، نہ ہی ایڈریس بتایا۔۔ اب وہ کیسے یونیورسٹی جائے۔۔ کس سے کہے۔۔!! ابھی وہ اس پریشانی میں تھی کہ عدیل نے اسے خود ہی ڈراپ کرنے کی آفر دی، پریشانی کے باوجود بھی وہ اس کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی لیکن پھر اس کے ، اتنے استحقاق اور پیار سے کہنے کے بعد وہ منع نہیں کر پائی اور خاموشی سے اس کے ساتھ چل دی۔
اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ اس کے ساتھ اتنا اچھا برتاؤ کیوں کر رہا ہے۔۔!! آخر وہ کرنا کیا چاہتا ہے۔۔!! خیر فی الحال اسے، اس الجھن میں اپنا دماغ نہیں دکھانا تھا، اس لیے ، اس نے اس معاملے پر سوچ بچار بعد کے لیے رکھ کر، اپنا دھیان ایگزامز اور ان کی فضول ٹینشن لینے میں لگایا۔
×××
ہر بدلتے دن، گزرتے لمحے اور ڈھلتی ساعت کے ساعت کے ساتھ، عدیل کی عنقا کے لیے پرواہ بڑھتی جا رہی تھی۔ اب تو عنقا کو بھی اس کی عادت سی ہونے لگی تھی اور عدیل کا تو جیسے اس کے بغیر رہنا ہی ناممکن سا ہو گیا تھا۔۔ اسے تو جیسے اس کی اریزے واپس مل گئی تھی۔۔!! اور وہ یہی تو چاہتا تھا کہ وہ اسے واپس مل جائے، لیکن پھر بھی اس نے بہت بار اپنے محسوسات کو جھٹلانے کی کوشش کی ، اس نے بہت بار یہ سوچنا چاہا کہ عنقا ہر گز اریزے نہیں ہو سکتی۔۔!! لیکن دل۔۔ وہ تو اسے عنقا کے وجود میں تلاش چکا تھا۔۔ وہ تو اس کی جھلک، عنقا میں دیکھ چکا تھا۔۔اور وہ اب مکمل، اسی کا ہو چکا تھا۔
×××
اب معمول یہ تھا کہ عدیل عرف "جنگلی" نے ، بہت فراخدلی اور بہت خوشی سے عنقا کے لاکھ منع کرنے کے باوجود، اس کی ، یونیورسٹی کی پک اینڈ ڈراپ سروسز اپنے ذمے لی تھیں، یعنی وہ اسے روز صبح جگانے کے بعد، زبردستی اپنی پسند کا ناشتہ کرواتا، اب بھلے عنقا کو اس کی پسند، اچھی لگے یا نہ لگے، لیکن اس معاملے میں، اس پر دھونس جمانا ، وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔۔ بے شک وہ کافی حد تک بدل چکا تھا اور اپنی طرف سے عنقا کو ، بہت خوش رکھنے کی کوشش کرتا لیکن ایسی چھوٹی چھوٹی سی ضدیں، شرارتیں اور زبردستیاں کرنے کا حق رکھتا تھا، خیر ناشتے کے بعد وہ خود اسے ڈراپ کرکے آتا اور واپسی پر بھی خود ہی لے کر آتا، گھر آنے کے بعد بھی وہ زیادہ تر اسی کے آس پاس رہتا۔
وہ حتی الامکان، اس کے لیے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔۔ اور ایسی کوششیں خود بہ خود ہی، اس سے سرزد ہوتی تھیں۔۔ وہ نہیں جانتا کہ وہ کیوں اس میں اس قدر انوالو (involve) ہوا۔۔ اور وہ انوالو ہونا بھی کب چاہتا تھا۔۔ یہ بس انجانے میں ہی۔۔ اس کا دل دل عنقا کی طرف کھینچتا چلا گیا۔۔ وہ انجانے میں ہی اسے اریزے کی طرح چاہنے لگا تھا۔۔ اور اب اس کی بس ایک خواہش تھی۔۔ کہ وہ بھی اسے اریزے کی طرح پیار کرنے لگے۔۔ وہ بھی اس کی غلطیاں معاف کر کے، اسے دل و جان سے، محبت اور مان سے قبول کرے۔۔ اور اسے یقین تھا کہ وہ ایسا ضرور کرے گی۔۔!! 

   1
0 Comments